معلم کرونا تحریر: سناور خان صابر.


SANAWAR KHAN SABIR
"Our youth have come a long way in this modern world but are becoming unfamiliar with their culture, civilization and culture and have become involved in wasteful spending and other immoral habits which is a moment of reflection for parents. This is the current state of our society. The narrow-mindedness with which our parents have worked day and night to settle the areas, to take care of all the affairs of agriculture and livestock in the best possible way is unmatched. But today's young generation is cheating their parents in the name of education, quality education is a thing of the past, they do not even get formal education. After completing their studies, our youth are drowning in unnecessary activities and habits. Instead of serving the country and the nation, they are causing disrepute for the nation and the family."
معلم کرونا
تحریر: سناور خان صابر
اسماعیلیوں کے روحانی پیشوا ہزہا ئنیس پرنس کریم آغا خان نے شمالی علاقہ جات کے اسماعیلی جماعت کو پہلے ہی یہ فرمان فرمایا تھا کہ اپنی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد واپس شمالی علاقہ جات یعنی اپنے آبائی علاقوں کی طرف جائیں اور اپنی قوم وجماعت کی خدمت کریں۔ لیکن جماعت نے امام علیہ سلام کی فرامین پر عمل نہیں کیا اور اپنے علاقوں کو چھوڑ کر شہروں کی طرف جاکر آباد ہونے کو ترجیح دیا اور اپنے بزرگوں کی آبادکردہ علاقوں کو ویران کرنا شروع کر دیا جو کہ کسی بھی طرح احسن اقدام تصور نہیں کیا جاتا۔ اب جب قدرت کی طرف سے کرونا کی شکل میں ایک وائرس جو انسانی جانوں کے لئے پر خطر ہے ہمیں ایک امتحان سے دوچار کیا ہے اور ہم ایک کھٹن دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ وائرس ایک آفت بھی ہے اور سے ہمیں سبق بھی ملتا ہے۔ اس وائرس کی وجہ سے ہمارے پڑھے لکھے بہن بھائی جو آبائی علاقوں کو چھوڑ کرشہروں کا رخ کر چکے تھے و ہ واپس اپنے علاقوں میں آنے لگے اور واپس آکر اپنے قوم و جماعت کی خدمت کرنے لگے ہیں۔ اباواجداد کی زمینیں جو بنجر ہوگئے تھے اب آباد ہونے لگے ہیں اور مختلف فصلیں اگا کر فائدہ حاصل کرنا شروع کیا ہے۔ لوگ شہروں میں جا کر آرام طلب ہوگئے تھے اور محنت سے کترانے لگے تھے لیکن اس وبا نے ہمیں درس دیا کہ ترقی و خوشحالی کے لئے محنت شرط ہے۔ ہمارے نوجوان اس جدید دنیا میں بہت آگے نکل گئے ہیں لیکن اپنے ثقافت، تہذیب و تمدن سے ناآشنا ہوتے جا رہے ہیں اور فضول خرچی و دیگر غیر اخلاقی عادتوں میں ملوث ہونے لگے ہیں جو کہ والدین کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ یہ ہے ہمارے معاشرے کی موجودہ صورتحال۔ ہمارے والدین نے جس تنگ دستی میں محنت کرکے دن رات ایک کیا ہے، علاقوں کو آباد کیے ہیں، زراعت او رمال مویشی کے تمام امور کو احسن طریقوں سے نبھایا ہے اس کی مچال نہیں ملتی۔ لیکن آج کے نوجوان نسل پڑھائی کے نام پر اپنے والدین کو دھوکہ دے رہے ہیں، معیاری تعلیم تو دور کی بات ہے، رسمی تعلیم بھی حاصل نہیں کرتے۔ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد ہمارے نوجوان غیر ضروری کاموں و عادتوں میں ڈوب رہے ہیں۔ ملک و قوم کی خدمت کرنے کے بجائے قوم اور خاندان کے لئے بد نامی کے باعث بن رہے ہیں۔
ہم ایک مشکل دور سے گزر رہے ہیں، ہمارا مستقبل کیا ہوگا کسی کو نہیں معلوم، تعلیمی ادارے و عبادت گاہیں بند ہیں او ریہ سلسلہ کب تک چلے گا نہیں معلوم۔ ہمیں چاہئیں کہ اپنے زمینوں کو آباد کریں، مختلف فصلیں اگائیں او رمتبادل آمد ن کے ذرائع تلاش کریں تاکہ مستقبل میں کسی غیر یقینی صورتحال کا سامنا نہ ہو۔ منشیات سے دوری اختیار کریں، بری عادتوں سے چھٹکارہ حاصل کرکے عبادت وبندگی کے سنہرے اصولوں کی اپنائیں۔ خداوند کریم کی مہربانی اور سائنس دانوں کی محنت کی بدولت کرونا وائرس سے بچاو کے ویکسین تیار کیا گیا ہے اورقوی امید ہے کہ بنی نوع انسان کی اس خطرناک بیماری سے چھٹکارا حاصل ہوگا اور امید کی فضا قائم ہوگی لیکن احتیاطی تدابیر پر عمل کرناانتہائی اہم ہے۔ جو نہ صرف خود اور اپنے خاندان کی حفاظت کرنا ہے بلکہ اس سے انسانی خدمت و حفاظت کا فریضہ بھی ادا ہوگا۔
حکومت وقت اور فلاحی ادارے مختلف طریقوں سے آگاہی و احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونے پر زور دے رہے ہیں اور یہ سب کاوشوں کی وجہ انسان کو اس خطرنات بیماری سے بچا نا ہے۔ ہمارا فرض ہے ہ اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالیں

No comments:

Please comments us. Your Feedback is important.

Powered by Blogger.